14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 24
منزل عشق قسط 24
فکشن کے بعد جنت اپنے کمرے میں آئی تھی اور مسکراتے ہوئے خود کو آئینے میں دیکھی جا رہی تھی۔اس کی تو خوشی کی انتہا نہیں رہی جب شایان نے اسے یہ بتایا کہ کل اس کا اور سالار کا نکاح ہونے والا ہے۔
جنت خوشی سے گھومنے لگی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے پورا جہان پالیا ہو۔محبت کو پانے کی خوشی سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا تھا؟
اچانک ہی کسی نے اپنے ہاتھ اسکی کمر پر رکھے تو جنت سہم کر فورا پلٹی لیکن وہاں سالار کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی۔
"آپ میرے روم میں کیا کر رہے ہیں؟"
جنت نے سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا لیکن سالار بس خاموشی اور استحقاق سے اس حسین چہرے کو دیکھتا جا رہا تھا۔سالار کی نظروں کی تپش سے گھبرا کر جنت میں شرماتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی آنکھوں پر رکھ دیا۔
"کیا ہوگیا ہے آپ کو آج پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں کیا؟"
"پورے حق سے پہلی مرتبہ ہی دیکھ رہا ہوں۔۔"
سالار نے اس کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے کہا اور پھر نرمی سے اپنے ہونٹ اس کے ہاتھ پر رکھے تو جنت شرما کر خود میں ہی سمٹ گئی۔
"آآآ۔۔۔۔آپ کو کچھ چاہیے تھا کیا ہے مجھ سے؟"
جنت کو اسکے ارادے سمجھ نہیں آ رہے تھے اسی لیے گھبرا کر پوچھنے لگی۔
"ہاں چاہیے تو بہت کچھ لیکن ابھی تم وہ سب دینے کے قابل نہیں۔۔۔"
سالار معنی خیزی سے کہتا اسکے قریب ہوا تو جنت گھبراتے ہوئے پیچھے ہونے لگی۔
"سالار۔۔۔"
جنت دیوار کے ساتھ لگ گئی تو سالار نے اسکے گرد اپنے بازو رکھ کر اسے خود میں قید کر لیا۔سالار کے وجود سے اٹھتی مردانا خوشبو جنت کو مزید نروس کر رہی تھی۔
"انتظار۔۔۔جنت جانتی ہو انتظار کسے کہتے ہیں؟انتظار اسے کہتے ہیں جو آج تک میں نے تمہیں پانے کے لیے کیا ہے۔۔۔زندگی کا ایک ایک پل تمہیں دیکھنے کی چاہ کو انتظار کہتے ہیں۔۔تمہیں پورے حق سے چھونے کی جستجو انتظار تھی جنت۔۔ "
سالار اسکے ہونٹوں کے قریب ہو کر سرگوشی کر رہا تھا اور جنت بس آنکھیں موندے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔
"سالار۔۔۔"
جنت نے پھر سے اسے پکارا تو سالار پورے حق سے ان نازک ہونٹوں پر جھکا اپنی تشنگی مٹانے لگا۔اتنے برسوں کے جنون اور شدت کو آج محبت کی ٹھنڈک نصیب ہوئی تھی۔
اپنی تمام شدت سے جنت کو آگاہ کرتا وہ اسکی سانسیں روک چکا تھا۔جنت نے اسکا گریبان اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن سالار کا تو ایسا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا۔
پھر خود ہی اپنی نازک سی جان کا خیال کرتے ہوئے اس سے دور ہوا۔جنت فوراً گھبرا کر اسکے سینے میں چھپی تھی۔
"آپ دوست ہی اچھے تھے۔۔۔"
جنت نے اپنا سانس بحال کر کے کہا تو سالار قہقہ لگا کر ہنس دیا اور اپنا گھیرا جنت کے گرد تنگ کیا تھا۔
" اتنی سی گستاخی پر جان ہوا ہو گئی تمہاری تب کیا بنے گا جب میں۔۔۔"
جنت نے فوراً اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیا جسے سالار نے مسکرا کر چوما اور مزید سختی سے جنت کو خود میں بھینچا تھا۔
"عشق کی اس منزل پر خوش آمدید جنت سالار۔۔۔"
سالار نے اپنے محبتوں کے اس جہان کو آغوش میں بھرتے ہوئے کہا آج ان دونوں نے سب کچھ پا لیا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
"اا۔۔۔انکل کیا مممم۔۔۔میں اندر آ جاؤں؟"
معراج نے دروازے میں کھڑے ہو کر پوچھا۔
"ہاں آؤ معراج۔۔۔"
خادم کے اجازت دینے پر معراج کمرے میں آیا اور اسکے سامنے موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔
"مم ۔۔۔مجھے آپکو کچھ بب۔۔۔بتانا ہے انکل۔۔۔"
خادم نے آنکھیں چھوٹی کرکے معراج کو دیکھا۔
"ہاں کہو کیا کہنا ہے؟"
"اااا۔۔انکل وہ عرفان ایمان کک ۔۔۔کے ساتھ بلکل اچھا سلوک نہیں کرتا۔۔۔وہ ممم۔۔۔مارتا ہے ایمان کو آآآ۔۔۔آپ اسے۔۔۔"
"معراج وہ جو کرتا ہے میرے کہنے پر ہی کرتا ہے۔شاید تمہیں ابھی تک اندازہ نہیں ہوا لیکن میری ایمان بیمار ہے پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں اسے ایسی حالت میں اس کا کسی نہ کسی سے ڈر کے رہنا بہت ضروری ہے ورنہ آپے سے باہر ہو سکتی ہے وہ۔۔۔۔"
خادم نے سامنے موجود کاغذات پر لگاتے ہوئے کہا۔
"لل۔۔۔لیکن انکل۔۔۔"
"بس معراج میں نے اپنی بات کہہ دی ہاں مجھے اور کچھ نہیں سننا تم چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔"
خادم نے سختی سے معراج کی بات کاٹ کر کہا۔معراج نے گھبرا کر ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔معراج کے جاتے ہیں عرفان وہاں پر آیا۔
"کیا کہہ رہا تھا یہ آپ سے؟"
عرفان نے وہاں بیٹھتے ہوئے دلچسپی سے پوچھا۔
"تمہاری شکایت لگا رہا تھا ایمان پر ہاتھ اٹھاتے ہو تم۔فکر مت کرو آئندہ نہیں لگائے گا۔"
عرفان نے ہاں میں سر ہلایا۔
"سر مجھے لگتا ہے سکندر یہی ہے اور ہمیں بے وقوف۔۔۔"
"پاگل مت بنو عرفان صرف اس کی آنکھوں کی رنگت سے تو میں اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔اس کی میڈیکل رپورٹس چیک کی ہیں میں نے وہ سچ میں ٹھیک سے نہیں بول سکتا اور سکندر کی تم نے دیکھا نہیں تھا کیسے زبان چل رہی تھی۔ویسے بھی اگر یہ سیکندر ہے تو کل رات اس آدمی کو مارنے کیسے پہنچ گیا تم اور میں دونوں جانتے ہیں کیا معراج پوری رات یہیں تھا۔"
عرفان نے ہاں میں سر ہلایا۔
"پھر بھی شک دور کرنے کے لیے تم کل ایمان اور اسے اپنے ساتھ ہمارے فارم ہاؤس کے جاؤ اور جیسے چاہو اپنا شک دور کر لینا۔"
عرفان کے ہونٹوں کو ایک شیطانی مسکراہٹ نے چھوا۔
"ابھی نہیں سر۔۔۔ابھی زرا ان بچوں کو خوش ہو لینے دیں ایک بار یہ دولت کا مسلہ ختم ہو جائے پھر معراج کو میری ملکیت پر نظر رکھنے کی سزا میں خود دوں گا۔۔۔"
خادم نے اثبات میں سر ہلایا۔
"جیسے تمہاری مرضی۔۔۔بس اس سکندر کا پتہ لگاؤ عرفان ورنہ وہ ہمارے لیے بہت بڑا مسلہ بن سکتا ہے۔"
عرفان نے ہاں میں سر ہلایا۔خادم نے اسے یقین تو دلایا تھا لیکن عرفان کا شک معراج سے ابھی بھی ختم نہیں ہوا تھا۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ سائے کی طرح معراج کے ساتھ رہے گا تاکہ اس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی حرکت پر نظر رکھ سکے۔
❤️❤️❤️❤️
ہانیہ وانیا کو لے کر گھر کے لان میں آئی تھی اور اب اسکے پاس بیٹھے باتیں کرتی جا رہی تھی اور وانیا بس خاموشی سے وہ باتیں سن رہی تھی۔
"اسلام و علیکم۔۔۔"
انس کی آواز پر ہانیہ ٹھٹھک کر مڑی اور حیرت سے انس کو دیکھنے لگی۔
"آپ یہاں؟"
ہانیہ فوراً اٹھ کر انس کے پاس آئی۔
"ہاں سوچا تمہیں مبارک ہی دے آؤں آخرکار تمہارا بچپن کا خواب جو پورا ہوگیا ہے۔"
انس نے مسکراتے ہوئے کہا اور ہانیہ سینے پر ہاتھ باندھے اسے طائرانہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"کیا یہاں آنے کا صرف یہی مقصد ہے ؟"
ہانیہ کے سوال پر انس کے لب شرارت سے مسکرا دیے۔
"میری بہن آئی ہے میرے ساتھ اور اس وقت تمہارے مما بابا کے پاس بیٹھی ہے۔میں نے سوچا کیوں نہ تمہیں کہوں کہ آ کر ان سے مل لو۔۔۔"
انس کی بات پر ہانیہ کا منہ پوری طرح سے کھل گیا۔
"اپنی بہن کو لے آئے آپ اور مجھے بتایا بھی نہیں اف حالت دیکھیں میری کیسے جاؤں گی ان کے سامنے؟ہٹیں جلدی سے مجھے چینج کرنا ہوگا۔ "
ان سب کو مزید کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر ہانیہ بھاگ کر اپنے کمرے میں آگئی اور الماری میں سے ہر جوڑا نکال کر باہر پھینکنے لگی۔
"افف کیا پہنوں آج انس کی بہن نے پہلی بار دیکھنا ہے مجھے اگر میں انہیں اچھی نہیں لگی تو؟"
یہ نیا خدشہ دماغ میں آنے پر ہانیہ کے چہرے کی مسکان غائب ہوئی لیکن اس برے خیال کو دماغ سے جھکتے ہوئے اس نے گلابی رنگ کی شلوار قمیض پہنی اور بال کھلے چھوڑ کر دوپٹہ سلیقہ سے سر پر اوڑھا۔
"ہانیہ۔۔"
"جی مما۔۔۔"
زریش کے بلانے پر ہانیہ ہڑبڑا کر مڑی تو اپنی کانفیڈنٹ بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر زرش کی ہنسی چھوٹ گئی۔
"تمہارے بابا بلا رہے ہیں تمہیں۔"
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھ کر گھبراتے ہوئے نیچے لاؤنج میں آئی۔جہاں انس کے ساتھ ساتھ اسکی بہن بھی موجود تھی۔
"ماشاءاللہ ہانیہ تم تو بہت پیاری ہو۔۔۔"
انس کی بہن نے ہانیہ کو اپنے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔
"نام پتہ ہے تمہیں میرا؟"
اس سوال پر ہانیہ نے شرمندگی سے انکار میں سر ہلایا اور پھر انس کو بری طرح سے گھورا جس نے اسے اپنی بہن کا نام تک نہیں بتایا تھا۔
"حنہ نام ہے میرا ویسے حیرت ہے بھائی تمہاری ہر بات بتاتے ہیں اور میرا نام تک نہیں بتایا۔۔۔واہ بھائی۔۔۔"
حنہ کی بات پر انس ہلکا سا ہنس دیا۔حنہ بہت دیر تک انکے پاس بیٹھی باتیں کرتی رہی تھی۔وہ بہت ہی زیادہ ہنس مکھ اور خوش مزاج لڑکی تھی۔ہانیہ بہت آسانی سے اسکے ساتھ اپنی اصلی فارم میں واپس آ چکی تھی۔
شام ہوتے ہی حنہ اور انس واپس جانے کی تیاری کر چکے تھے۔حنہ کو گاڑی میں بیٹھا کر انس ہانیہ کے پاس آیا۔
"تمہارے بابا تم سے کچھ پوچھیں گے مس اور جواب ہاں ہی ہونا چاہیے تمہارا۔۔۔"
انس کی بات پر ہانیہ نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے انس کو گھورا۔
"میرا جواب میری مرضی۔۔۔"
"حق میں تو آ جاؤ پھر اس مرضی کو بھی دیکھ لوں گا میں۔۔۔"
انس جھک کر اسکے کان کے پاس سرگوشی کر کے ہانیہ کی دھڑکنیں بڑھا چکا تھا۔ہانیہ نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا تو انس اسے خدا حافظ کہتا گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا جبکہ ہانیہ اسکے بارے میں سوچتی مسکراتے ہوئے کمرے میں وانیا کے پاس چلی گئی۔
❤️❤️❤️❤️
"نور خان تمہیں جنرل شہیر کا بیٹا میڈی یاد ہے؟"
وجدان کے سوال پر زرش نے ہاں میں سر ہلایا اور اس کے پاس بیٹھ کر بیٹھ گئی۔
"کیسا لگا تھا وہ تمہیں؟"
"اچھا تھا بلکہ وہ دونوں بھی بہت اچھے تھے مجھے ان کی پوری فیملی بہت پسند آئی۔۔۔لیکن آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں وجدان؟"
زرش نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا۔
"کیونکہ کہ جنرل شہیر نے اپنے بیٹے کے لئے وانیا کا رشتہ مانگا ہے۔"
وجدان کی بات پر زریش کافی حیران ہوئی کیونکہ ایک اغوا ہونے والی لڑکی کی کردار کشی دنیا کس طرح سے کرتی تھی وہ اس بات سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔
"کیا وہ لڑکا وانیا کے اغوا ہونے کے بارے۔۔۔۔"
"ہاں نور خان وہ جانتا ہے اور اسے بات سے کوئی اعتراض نہیں۔اسے وانیا پہلی نگاہ میں ہی بہت زیادہ اچھی لگی اسی لئے وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور سچ پوچھو تو میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ وانیا اپنے گھر کی ہو جائے پھر شاید جو غم اسے اندر ہی اندر نگل رہا ہے وہ اس سے چھٹکارا پا لے۔۔۔۔"
زرش نے ہاں میں سر ہلایا۔
"آپ خود وانیا سے بات کر لیجئے گا میرے سے زیادہ تو وہ آپ کے قریب ہے۔۔۔"
کچھ سوچتے ہوئے وجدان نے ہاں میں سر ہلایا اور شرارت سے مسکرا کر زرش کو دیکھنے لگا۔
"وہ تو میرے قریب ہے ہی نور خان بس ایک تم ہی ہو جو میرے قریب نہیں آتی۔۔۔"
وجدان نے اسے کھینچ کر خود سے لگایا تو شرم کی مارے زرش کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔
"وجدان آپ نا کبھی نہیں سدھریں گے۔"
"بلکل ایسا ہی ہے۔۔۔"
وجدان نے اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا تو زرش تمام پریشانیاں بھلا کر اس کی آغوش میں مسکرا دی۔
❤️❤️❤️❤️
جنت کالج کے بعد سالار کے گھر آئی تو وہ گھر پر نہیں تھا۔انکے نکاح کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا اور نکاح کے بعد آج جنت پہلی مرتبہ سالار کے گھر آئی تھی۔
پہلے تو وہ حمنہ کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی رہی پھر ٹائم پاس کرنے کے لیے وہ سونو کو اٹھا کر سالار کے کمرے میں آ گئی اور ہر چیز کا جائزہ لینے لگی۔
"واہ کمرہ تو بہت کلاسی ہے انکا چوائس اچھی ہے ناں سونو ان کی۔۔"
جنت نے اسکی فر سہلاتے ہوئے کہا۔پھر اسے شرارت سوجھی تو سونو کو فرش پر اتار کر سالار کی الماری کی جانب بڑھی۔
سالار کے کپڑے نکال کر اس نے اسکی پینٹ شرٹ پہنی اور آنکھوں پر سالار کے گاگلز لگا کر اسکی ایکٹنگ کرنے لگی۔
"ہوں نام تو لو بے بی گرل دنیا اٹھا کر تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا۔۔۔"
جنت آواز بھاری کر کے شان سے کہہ رہی تھی اور دروازے میں کھڑا سالار مسکراتے ہوئے اپنی کیوٹ سی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔
"واہ مجھے کافی اچھی طرح آبزرو کرتی ہو تم۔۔۔"
سالار کی آواز پر جنت ایک ہلکی سی چیخ مار کر مڑی اور ہچکچا کر کہنیوں تک فولڈ کی شرٹ کے بازو ٹھیک کیے۔سالار اسکے قریب آیا اور کمرے سے کھینچ کر اسے اپنے قریب کیا۔
"تمہیں اس حلیے میں دیکھ کر میں خود پر کیسے قابو کر رہا ہوں جان سالار یہ صرف میں ہی جانتا ہوں۔۔۔بہت چھوٹی ہو تم کچھ تو اپنے اور میرے حال پر رحم کرو۔۔۔"
سالار نے جنت کے ہونٹوں کے قریب ہو کر سرگوشی کی تو جنت نے گھبرا کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی پھر سے سالار کی شدت سہنا اسکے بس سے باہر تھا۔اس سے پہلے کہ سالار کوئی پیار بھری گستاخی کرتا اسکا موبائل بجنے لگا۔
سالار کا دل کیا کہ فون کرنے والے کا سر پھاڑ دے لیکن پھر نمبر دیکھ کر باہر چلا گیا۔جنت نے جلدی سے اسکی گاگلز اتار کر ڈریسنگ پر رکھی اور واش روم میں جا کر جلدی سے کپڑے بدل آئی اس نے سالار کے کپڑے اسکے کبرڈ میں رکھنا چاہے تو اچانک ہی اسکی نظر ایک لاک پر پڑی جس میں پاسورڈ کا آپشن آ رہا تھا۔
جنت حیران ہوئی کہ سالار نے یہاں کیا چھپایا ہو گا۔جنت نے بس شرارت سے اس میں اپنے برتھ ڈے کا پاسورڈ ڈالا تو وہ لاک کھل گیا۔
اسکی زندگی میں اپنی اتنی اہمیت دیکھ کر جنت مسکرا دی۔اس نے الماری کا وہ حصہ کھولا تو اس میں بس کالے کپڑے تھے جو کالی پینٹ،ہڈی اور رومال پر مشتمل تھے۔
جنت نے حیرت سے انہیں دیکھا تو اسکی نظر چھوٹی سی ڈبیہ پر پڑی۔جنت نے اس ڈبیہ کو کھولا۔
"جنت کیا کر رہی ہو؟"
سلار کی آواز پر جنت اسکی طرف پلٹی اور وہ ڈبیہ سالار کے سامنے کی۔
"آپ کو بھی معراج جیسی آنکھیں پسند ہیں ناں ؟ اب کیا کریں وہ ہے ہی اتنی پیاری۔۔۔"
جنت نے ہاتھ میں پکڑے سبز رنگ کے لینز کو دیکھتے ہوئے کہا جبکہ سالار کا سانس اسکے حلق میں اٹک چکا تھا۔یہ تو شکر تھا کہ جنت سکندر کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی ورنہ سالار اسے کیا جواب دیتا۔
"چھوڑو انہیں جنت اور جاؤ نیچے مما تمہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔۔"
سالار نے زرا سختی سے کہا تو جنت حیران ہوئی لیکن فوراً ہی وہ لینز کی ڈبیہ اس نے میز پر رکھی اور نیچے چلی گئی۔ان سبز لینز کو دیکھتے ہوئے سالار کے ہونٹوں پر ایک مسکان آئی تھی۔
"سکندر کا راز کبھی نہیں جان پاؤ گے تم سلطان بہت جلد اپنی زبان سے چیخ چیخ کر سچ بتاؤ گے اس دنیا کو تم اور اس دن میرے بابا کو انصاف ملے گا۔۔۔"
سالار نے مسکرا کر کہا اور ان چیزوں کو پھر سے لاک میں رکھتا نیچے جنت اور حمنہ کے پاس چلا گیا۔